audio
audioduration (s) 7
15
| transcription
stringlengths 31
259
|
|---|---|
مچھلی اور پرندے کی ملی جلی حیت والا ہمارا بعد نماز ہوا کا رخ بتانا کب کا چھوڑ چکا تھا
|
|
سلمان بھی گھبرا گیا اس نے جلدی سے کہا اچھا اب میں چلوں گا تم جب بھی کسی پریشانی میں ہو انو کے ذریعے مجھ کو اپنا پیغام بھیجوا دینا میرا خیال ہے کہ تم اس سے یہ کام لے سکتی ہو
|
|
میں نے پیچھے گھوم کر دیکھا آواز گیروے رنگ کی ایک بے ہیت امارت کی طرف سے آئی تھی جو ریلوے سٹیشن کی کوئی نئی توسی معلوم ہوتی تھی
|
|
تم ٹھہرے نوابزادے اور وہ نواب یا نوابزادہ ہی کیا ہوا جسے دو چار مساہب رکھنے کا شوق نہ ہو تم نے بھی دوسرے رئیسزادوں کی طرح ایک علفتہ پال رکھا ہے
|
|
خیریت سے تو رہیں حضور بیگم نے مسحری پر بیٹھتے ہوئے کہا تم نہ آئیں تو طبیعت بہت پریشان رہی نہ جانے کیسے کیسے خیالات دل میں آ رہے تھے
|
|
اتنی بڑی بات کہنے کے لیے کہاں سے حوصلہ لائے گی وہ بہت دبی دبائی لڑکی ہے اس کی پرورش ہی اس طرح ہوئی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ میں نہ کبھی تلہ تارہ کو دیکھ سکوں گا نہ مل سکوں گا قیسر مرزا نے بجھے ہوئے لہجے میں کہا
|
|
نوشا نے اس کی یہ حالت دیکھ کر پوچھا، ابے چپ چپ کیوں نظر آ رہا ہے؟ پہلے تو وہ خاموش رہا مگر جب راجہ نے ڈانٹ کر کہا، مو سے تو بول آخر بات کیا ہے؟
|
|
لاؤ بھئی نبی بخش میں نے داروغا کی طرف دیکھا انہوں نے سر اور ابروعوں کو بہت خفیف سی جمبش دے کر مجھے سنبھل جانے کا اشارہ کیا۔
|
|
ایک اور دور کے رشتے دار جنہیں پورا سال مجلس معتمداری کی عجیب عادت تھی وہ سارا سال محرم سمجھ کر گزارتے
|
|
دوسرے مصرے نے اس کو خاصا پریشان کیا۔ وہ ادھےڑ عمر کا آدمی تھا، چہرے پر چگی داڑی تھی اور دیکھنے میں مریل نظر آتا تھا۔
|
|
ایک خد میں اس نے لکھا کہ اسے ہاؤس جوب کے لیے کوئی بھی اسپتال گھسنے نہیں دیتا میں نے جواب لکھا کہ وہ ڈاکٹر کے اوبیل سے کیوں نہیں ملتا وہ اس کی ضرور مدد کریں گے
|
|
ارجمن سلطانہ کا اندازہ غلط نہ تھا یہ نکتہ آگا جانی نے ہی اسے بتایا تھا مگر یہ نہ بتایا تھا کہ معاملہ واقعی اگر پولس تک پہنچ گیا تو کیا ہوگا
|
|
اس کا مطلب یہ ہوا کہ تلہ تارہ سے اب میں کبھی نہ مل سکوں گا ان کو کبھی نہ دیکھ سکوں گا اس نے بجھے ہوئے لہجے میں کہا ہاں تم اب اس سے کبھی نہ مل سکو گے ارجمن سلطانہ نے دو ٹوک لہجے میں کہا
|
|
جو کماتے جوے میں لگا دیتے، دکان بکی، مکان بکا اور آخر میں کوڑی کوڑی کے مہتاج ہو کر عمرے کے کاروان کا کاروباز شروع کیا مگر لط آج بھی جن کی تو ہیں۔
|
|
پھر انہوں نے بتایا کہ وہ صبح سے دوپہر تک کہیں باہر نہیں جاتی اور یہ کہ میں چاہوں تو اسی دن سے کام شروع کر دوں میں نے اسی دن سے کام شروع کر دیا
|
|
مجھے اس کا اتمنان تھا کہ اب میں کمس کم اپنے خرچ بھر کا کما لیا کروں گا اور میرا خرچ کھانے کے سوا تھا ہی کتنا
|
|
میں اپنے ساتھ والی عورت پر جھک گیا اور جھکتے جھکتے مجھے کھڑکی کی دوسری جھریوں سے سرخ لباس کی جھلکیاں نظر آئیں میں نے کنکھیوں سے اوپر والی جھری کی طرف پھر دیکھا
|
|
بیوی باورچی خانے میں جا کر کھانا گرم کرتی نیاز کو میٹھی چیزوں سے رقبت تھی اس لیے وہ بلا ناغہ کوئی نہ کوئی ایسی چیز ضرور تیار کرتی
|
|
آسمان دھوئے کے باعث اندھا اور بہرہ ہو چکا تھا آبیاں سارن لائل ادریسہ اور ونگی کی کوئی پکار اور دعا آسمان تک نہ پہنچ پاتی
|
|
واپس اشرت منزل بھی جانا اب ممکن نہ تھا پہلے ہی تاخیر ہو چکی تھی ڈرائیور بروقت پہنچنے کی خاطر کار بہت تیز رفتار سے دوڑا رہا تھا
|
|
ایک روز راستے میں ان کی ملاقات عقل و دانش سے ہو گئی وہ پیدل ہی بغیر کسی زادہ راہ کے اپنی دھن میں کہیں چلے جا رہی تھی
|
|
اس کی نظر سب سے پہلے سہنچی پر پڑی آگا جانی وہاں موجود تھا وہ تخت پر بیٹھا اتمنان سے کلچے اور نہاری کھا رہا تھا
|
|
شلوکہ بھی ریشمی تھا، شوخ رنگ کا تھا اور خوب قسا ہوا تھا۔ آنکھوں میں گہرا دنبالہ سرما تھا اور ہوتوں پر پان کا لاکھا تھا۔ وہ اس وقت بہت مسرور نظر آ رہے تھے۔
|
|
ماں ہر بات سے بے نیاز ہو چکی تھی اس کو صرف پانوں سے دلچسپی تھی اور جب ان کے مہیا ہونے میں بھی دشواری پیش آتی تو وہ بھڑک اٹھتی
|
|
آپ تو جن نہیں معلوم ہوتے کچھ سمجھ میں نہیں آتا میری تو عقل کام نہیں کر رہی اس کے چہرے پر خوف کے سائے پھیل گئے پھٹی پھٹی آنکھوں سے قیصر مرزا کو دیکھتے ہوئے گویا ہوئی آپ نواب بوٹا کے بیٹے قیصر مرزا نہیں ہیں
|
|
مفلر والے نے کرسی پر پہلوسہ بدلا پھر بدن کو تھوڑا آڑا کر کے پتلون کی جیب سے کنجیوں کا گچھا نکالا اور بریف کیس کے اوپر رکھ دیا
|
|
یہی حالت میجر سمی کی بھی تھی، ان کے کئی قریبی ساتھی بھی دشمن کی گولہ باری کا نشانہ بن کر مارے جا چکے تھے۔
|
|
کمرے میں روشنی پھیل گئی، ارجمن سلطانہ اسے دیکھ نہ سکیں۔ حیرانوں پریشان ہو کر غور کرنے لگیں کہ وہ کہاں چلا گیا، کدھر چلا گیا۔
|
|
سلمان جس کا لہجہ فلک پیما کے جلسوں میں ہمیشہ جارحانہ ہوتا تھا اب اس کے انداز میں ایک نمائی تبدیلی رونما ہو رہی تھی وہ سنبھل سنبھل کر بات کرتا اور اپنی بات کو بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کرتا
|
|
تمہیں علم نہیں انگریزی علاج کی کرامات کا پچھلے ماہ ہی ہم نے ایک انجیکشن جو انگریز لوگ اپنے گالوں اور ماتھے کی جھرریوں کو مدھم کر کے سخت جلد کروانے کے لیے لگواتے ہیں کچھ بوٹ کر کے نام تھا ہاں بوٹیکس
|
|
میری چاپ سن کر اس نے سر اٹھایا اور آنکھوں کے حلقیں تنگ کر کے مجھے پہچاننے کی کوشش کی۔ میں نے درخت کی شاخے نہیں ہیلائی تھی، ورنہ وہ مجھ کو فوراں پہچان لیتا۔
|
|
راجہ کی دلدوست چیخیں کمرے کے اندر گونشتی رہیں۔ نوشہ سہمہ ہوا یہ سارا تماشاں دیکھتا رہا۔ اس کا چہرہ سفید پڑ گیا تھا اور ٹانگیں برابر کانپ رہی تھیں۔
|
|
میرا بوتا آج کل مسے ملنے آیا ہوا ہے وہ مسے اکثر ماضی کی باتیں پوچھا کرتا ہے آج اپنا ماضی بتاتے ہوئے اچانک موریس کا تذکرہ بھی آ گیا اس نے بھی کتابوں میں موریس کا نام پڑھ رکھا تھا
|
|
آغا نے سنبھلے ہوئے لہجے میں کہا میر نصیر بتاتا تھا کہ جمن کی ماں دولاری ایک زمانے میں نواب صاحب کی پیش خدمت تھے
|
|
دونوں نے گھبرا کر اس طرف دیکھا جہ دھر سے شور اٹھا تھا۔ ایک سہنچی کے نیچے دھندلی روشنی میں کچھ لوگ ہلکا بنائے بیٹھے تھے۔
|
|
مگر اس کی سوچ کے برخص اگلے ہی دن گلدستے کے سارے پھول مرجھا کر سوکھنے لگے اور فیلاری کا چہرہ بھی ایک ہی دن میں مرجھائے پھولوں کی طرح ہر طرف جھوریوں سے بھر گیا۔
|
|
کوئلے جب خوب دہکنے لگے تو خدمتگار نے انگاروں پر لوہے کا روپے برابر ایک گول ٹکڑا رکھ دیا۔ لوہاں گرم ہو کر انگارے کی معنی سرخ ہو گیا۔ نواب بڈھن کی ہدایت پر خدمتگار نے انگیٹھی اٹھائی اور ان کے رو برو رکھ دی۔
|
|
میں نے جلدی جلدی نئی تہینیوں کو توڑا اور آگ کو بڑھایا دھواں بہت زیادہ بھر گیا تھا میں کچھ دیر باہر نکلی باہر ہلکی ہلکی برف پڑنا شروع ہو چکی تھی
|
|
کمرے کے اندر ایک بڑا سا گیس کا ہنڈا جل رہا تھا ہر طرف تمباکو کا دھوا منڈلہ رہا تھا سامنے چبوترے پر کالے صاحب اونچی بان کی ہٹ لگائے ہاتھ میں جادوگروں کی طرح ایک سیاہ چھڑی لئے کھڑا تھا
|
|
کاظم کی شامیں عام طور پر چوک میں گزرتے تھیں آغہ نے سوچا کہ اس وقت کاظم چوک میں مل جائے گا اور اگر ملاقات ہو گئی تو اس سے قیسر مرزا کی خیر خبر مل جائے گی
|
|
اس اعلان کا فوری ردعمل یہ ہوا کہ خان بہادر کے ہامیوں کی حمتیں بڑھ گئیں اور وہ بہت بڑھ چڑھ کر باتیں کرنے لگے
|
|
یہ مجسمائی دیکھ لو انہوں نے مشقی گوشے میں لکڑی کے سٹینڈ پر رکھے ہوئے مجسمے کی جانب ہاتھ اٹھا کر اشارہ کیا۔
|
|
خول کو چڑھائے لگ بگ دو ماہ دس دن ہو چلے تھے ایک رات بالیا کی شدید سردرد سے آنکھ کھلے اس نے سردرد کی دوالی مگر آرام نہیں آ رہا تھا
|
|
اس وقت بھی وہ نہ صرف دنگل بلکہ کوچاؤ بازار کی گہمہ گہمی اور ہنگاموں سے بینیاز اشرت منزل کی ایک ویران سہنچی میں تنہا اور گمسم بیٹھا تھا
|
|
ہم تو کبھی شیر چیتے کو دیکھ کر نہ جھچکے تم بلا کی بات کرتے ہو اور وہ بھی چڑیا کے برابر اب تو صبح ہو گئی کل رات جا کر یہ بھی دیکھ لیں گے کہ وہ کیسے کلیجہ نکال کر کھا جاتی ہے
|
|
اسے معلوم ہونا چاہیے، میں نے سوچا اور کمرہ بند کر کے سہن میں اتر آیا۔ میں صدر دروازے کی طرف بڑڑا تھا کہ مجھے کچھ محسوس ہوا اور میرے قدم رک گئے۔ آہستہ آہستہ چہرہ پیچھے گھوما کر میں نے کھڑکی کی طرف دیکھا۔
|
|
اسے علم تھا کہ جزیرہ آسیب زدہ ہے مگر جب آسیب اور تیر پر لگے ہوئے سونے کا موازنہ کیا گیا تو سونہ بھاری نکلا جون جون جزیرہ قریب آتا جا رہا تھا پانی کی سطح گرتی جا رہی تھی اور کشتی پانی کے اندر دھنس رہی تھی
|
|
میں نے اپنے کپڑوں میں اوڑنے کی کوئی چیز نہیں رکھی تھی چادرہ مجھے غنیمت معلوم ہوا اس آدمی نے بھی کہا رکھ لو سویرہ ہوتے تھندک بڑھ جاتی ہے
|
|
پھر بھی جب میں نے دیکھا کہ وہ امید بھری نظروں سے مجھے دیکھ رہی ہے تو میں نے کہا ہم اپنی پہاڑی مینہ کو اس کی پہاڑی مینہ لا کے بالکل دیں گے۔
|
|
لوکمان بھی عوائل عمری سے ہی سب کا دل پسند بچہ تھا اس کی اسی سب کے کام آنے کی عادت کی وجہ سے گھر ہو یا باہر کیا بڑے کیا چھوٹے سب ہی اسے بہت عزیز رکھتے تھے
|
|
حاجی چھٹن کا کارخانہ ایک گلی میں تھا آگا نے سوچا اگر حاجی اس وقت مل جائے تو اس سے کچھ پیش کی ایٹھ لے
|
|
ناگاہ گہرے سناٹے میں چھت پر قدموں کی آہٹ اُبری قیسر مرزا نے چونک کر دروازے کی جانب دیکھا
|
|
کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ وہی محذب شخص ہے جو کچھ دیر پہلے بالکل معمول کی حالت میں تھا۔
|
|
اس نے اس بدتمیز مجسمے کو اٹھوا کر اپنے پائیں باغ میں کھڑا کر دیا اور خود پہلے والے مجسمے سے گرنے والی مٹی سے ذرا مختلف نازک انڈام مجسمے پر دن رات کام کرنے میں جد گیا۔
|
|
اور یہ بھی یاد رہے کہ وہ اس چیز کو یہاں ساتھ نہیں لا سکیں گے اس لئے جتنا ہو سکے کم سے کم چیزیں خریدیں اور زیادہ وقت سیارے کی سیر میں سرف کریں
|
|
کپتان جارج مارٹن نے تو اپنے وعدے کے مطابق عبداللہ خان کو معاف کر دیا اور اپنی رقم سے بھی دست بردار ہو گیا
|
|
باپ نے پھٹی ہوئی آنکھوں سے ہوا کو دیکھا اپنی انگلی گھوما گھوما کر اندازہ لگایا اور زوردار آواز میں جواب دیا
|
|
لیمپ کی پیلی پیلی روشنی میں اس کے چہرے کا نصف حصہ نظر آ رہا تھا جس کی زردی سے اس کے چہرے پر ایک روغنی چمک جھلک رہی تھی
|
|
کوئی اور ایسی حرکت کرتا تو ٹکڑے کر ڈالتا اس نے چراغوں کی روشنی میں جھلملاتا ہوا چھوڑی کا تیز پھل سامنے کر دیا اسے دیکھ رہے ہو دیکھ رہا ہوں بالکل دیکھ رہا ہوں اسی چھوڑی سے تم اس بیچارے کو زبا کرنا چاہتے تھے
|
|
ان کا چہرہ کمل کی روشنی میں مرجھا کر زرد پڑ گیا میری انہا کہا کرتی تھی خدا کسی پل جنوں کا سایا نہ ڈالے زندگی بھر پیچھا نہیں چھوڑتے
|
|
آخر سلطانہ نے اٹھ کر دروازہ کھول دیا نیاز اندر آ گیا ذرا دیر وہ چپ چاپ کھڑا رہا پھر اس نے سلطانہ سے کہا دیکھو ذرا ہوشیار سونا اس نے جلدی سے پوچھا کیوں
|
|
اچھا تو پھر میں اوپر چلی جاؤں اس کے لہجے میں بچوں کیسی معصومیت تھی میری اچھی نجو تم بھی تو میرے ساتھ چلوگی نا نجو پسیج گئی جھجکتے ہوئے گویا ہوئی دیکھیئے جلدی لوٹائیئے گا میرے سر کی قسم کھا کر وعدہ کیجئے
|
|
اسے تنہا چھوڑ کر کہیں جا بھی نہیں سکتا کیا بتاؤں کس مشکل میں مبتلا ہوں ایک بار ایسا ہوا کہ ہجامت بنوانے کے لئے ہجام کی دکان تک گیا تھا
|
|
قیصر مرزا خاموشی سے دوہر پر بیٹھ گیا، سندلی بھی لہنگا سمیٹ کر اس کے پاس بیٹھ گئی، قیصر مرزا ہلکے کاہی ملینے کا اونی کرتہ
|
|
مامائیں اور لونڈیاں ادھر سے ادھر آ رہی تھیں، جا رہی تھیں، ہس بول رہی تھیں، بابلچی خانے سے خانوں کی تیز مہک اُبھر رہی تھیں۔
|
|
بیٹل اور لڑکی چلتے ہوئے اس شیشم کے گھنے درخت کے نیچے آئے جس کے نیچے تحسین اور پیچھے موسم بہار کی سہ پہر کا سورش تھا
|
|
داکٹر گھر سے چلنے ہی والا تھا کہ اتنے میں نیاز پہنچ گیا۔ داکٹر نے اس کو کمرے میں بٹھایا اور مسکرا کر بولا کہو میاں نیاز آج ادھر کیسے آگئے؟ نیاز اپنی بات کہتے ہوئے جھجک رہا تھا۔
|
|
آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ میں جن ہوں اور بالکل ایسا کرسکتا ہوں کہیے تو ابھی آپ کو مکھی بنا کر دکھا دوں ساری زندگی اسی شکل میں رہیں گی
|
|
نواب صفی ان سے قدورت بھی رکھتے تھے دل میں جو تھوڑی بہت گنجائش تھی وہ مساہبین نے نواب تقی کے خلاف کان بھرکر مٹا دی
|
|
دوران سفر اسے یاد آیا کہ وہ اپنے سسور سے مل کر نہیں آیا مگر وارفتگی کا یہ عالم تھا کہ اس نے اس بات کو زیادہ اہمیت نہیں دی
|
|
قمر جہاں یا کوئی بھی چھوٹی سرکار کے بارے میں پوچھے تو کہہ دیجیے گا کہ خالہ زاد بہن خرشید جہاں بیگم کے پاس گئی ہیں ایلو سب کو پتا ہے کہ میں اسے کہیں اکیلا نہیں چھوڑتی حضور بیگم کی پریشانی کم نہ ہوئی
|
|
دنیا کے کئی ملکوں میں ان کی جائیدادیں تھیں برٹل کو پاکستان بہت پسند تھا جب بھی چھٹیاں ہوتیں تو برٹل اور تحسین سیر پر نکل جاتے
|
|
جزیرے پر رہتے ہوئے چار ماہ ہو چکے تھے برٹل نہایت مہتاد منصوبہ بندی کے تحت ان دو ہزار سالوں کو زینوں سے آشنا کروا رہا تھا جو اس دنیا سے لا تعلقی میں گزارے تھے
|
|
آخر ایک دن اسے ماچے سے ایک جوتے میں پڑی مل گئی تو اس کی جان میں جان آئی اچانک اس کے دل میں لالچ پیدا ہوا کیوں نہ ہیروں کی کان کے مالک کی زندگی کا مزہ لوں
|
|
میں نے موقع غنیمت جانا اور فوراً اس ویلچئر کے پاس پہنچ گیا اور دو زانوں ہو کر موریس کے ہمشکل کو سلام کیا۔
|
|
مگر اس کی بھرپور اور عملی تصویر سکرات کی شکل میں سامنے آئی سکرات نے سوال و جواب کی وسادت سے حقائق کو بے نقاب کیا شام گہری ہو رہی ہے آج کی رات تھیبز میں بسر کی جائے
|
|
مالکین بڑی بیگم بھی گھاگ اور انتہائی کنجوز خاتون تھی۔ نہ جانے کتنی پروین جیسیوں کو اب تک بھوکتا کر چلتا کر چکی تھی۔
|
|
تم کہتے ہو تو میں اسی کو کاغذہ دے دوں گی، حالانکہ اس صندوقچی کو اس کے پاس لے جانے میں خاصی دشواری ہو گی۔ انہوں نے گود میں رکھی ہوئی صندوقچی کی طرف اشارہ کیا۔
|
|
ہر طرف موت کیسی ویرانی چھائی تھی انہوں نے کوئی دو ڈھائی فرلانگ کا راستہ تے کیا ہوگا کہ ٹیلے کے نشیب میں ان کو کچھ روشنی نظر آئی
|
|
خوپڑی کی اساس سے نکلنے والی ریڑ کی ہڈی کی زنجیر مہرہ در مہرہ سلامت تھی اور کولوں کے درمیان اپنے قدرتی مخروطی انجام کو پہنچتی تھی
|
|
خوف اور دہشت کے سائے ہر طرف پھیل گئے خادماؤں اور لانڈیوں نے ڈر کر اپنی اپنی کوٹھریوں کے دروازے بند کر لیا حضور بیگم اور مغلانی دم بخود بیٹھی تھی اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے دروازے کی جانب دیکھ رہی تھی
|
|
مجھے محسوس ہوا کہ ہم دونوں میں کوئی خاموش مفاہمت ہو رہی ہے اور اچانک مجھ پر اس گھر میں آنے کے بعد بے دلی کا پہلا دورہ پڑا۔
|
|
کوئی مکان ان ٹھکانوں سے خالی نہیں تھا خواہ وہ نیا ہو یا پرانا یا ایک ہی وزہ کے بنے ہوئے سیکڑوں مکانوں میں سے ایک ہو
|
|
میں نے فائبر پیسٹ پروٹین پیسٹ اور چند من پسند چھوٹے زندہ کیڑے اور سنڈیاں اٹھا لی تھیں چونکہ آج عیوہ کی سالگرہ بھی تھی اس لیے بھی سوچا کہ انگوٹھے کے سائز کے بڑے سیپ بھی ضرور لوں
|
|
تم تو کسی اور دھن میں مگن تھے، قیسر مرزا نے مڑ کر دیکھا، تخت خالی تھا، نہ سندلی تھی اور نہ گلفام، صرف اس کے کھلونے تخت پر بکھرے ہوئے تھے۔
|
|
اس وقت ایسا محسوس ہوتا کہ ہم مردہ اور زندہ جسموں پر چل رہے ہیں ہمیں ڈر لگتا اور ہمارے رونگٹے کچھ کچھ کھڑے ہو جاتے
|
|
اس پر شاید کبھی لکڑی کے لٹھے لادے جاتے ہوں گے اب اس میں لٹھوں ہی سے کئی چھوٹی بڑی کوٹھرییاں سے بنا لی گئی تھیں
|
|
ہر ظلم و ستم پر خاموش رہوں یہاں تک کہ رات آدھی ہو جائے اور رانی صاحبہ کے کمرے کی تمام روشنیاں گل ہو جائیں
|
|
سرکار اب تو ہر گھر میں اسی کا رواج ہوتا جارہا ہے بلکہ غریب غربہ تو چائے میں رات کی باسی روٹی بھگو کر صویرے اسی سے ناشتہ کرتے ہیں
|
|
نوشا نے جلدی سے کہا یار یہ کیسی باتیں کر رہے ہو میں کب ان کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں مگر وہ تو بڑے خطرناک لوگ ہیں
|
|
دادا مانیا کی عمر لگ بھگ 102 سال کی ہوگی مگر دادا مانیا اب بھی کافی حد تک صحت مند ہے
|
|
قیصر مرزا اب تک جو کچھ ہوتا رہا اسے بھول جاؤ ارجمن سلطانہ نے تیخے لہجے میں کہا اب یہ کھیل ختم ہو جانا چاہیے
|
|
دادا مانیا نے روتے ہوئے کہا بیٹا اس کے بعد کے واقعات دل دہلا دینے والے ہیں ایسے کہ اگر زمین سنے تو اس کا سینہ غم سے چاک ہو جائے آسمان سنے تو وہ پھٹ پڑے
|
|
میں تو سندلی سے ملنا چاہتا ہوں برابر اس کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں مگر سوال یہ ہے کہ اس سے ملا کیسے جائے قیسر مرزا نے اپنی مجبوری بیان کی
|
|
لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری اور لگا رہا اس دوران مجھے چین سے متعلق کچھ خبریں نظر آئیں کہ وہاں بھی یہ وبا پوری طرح پھیل چکی ہے کئی ممالک صدر اور وزراء آزم بھی اپنی آدھ داشت کھو بیٹھے ہیں اور بے سروپہ حرکتیں کرتے نظر آئے ہیں
|
|
پروین ہزار کوشش کے باوجود ابھی تک چھوٹی موٹی گری پڑی کھانے کی چیزوں کے علاوہ کوئی لمبا ہاتھ نہیں مار سکی تھی۔
|
|
آپ تو یہ سمجھ رہے ہوں گے کہ میرا کام دمام ہو گیا آپ کا نشانہ کہیں چوک سکتا ہے جی جی یہ کیا فرما رہے ہیں آپ پیارے آغا بوکھلا کر بولا میں آپ کی بات کا مطلب نہیں سمجھا
|
|
اس دن گھر کے دوسرے لوگوں نے میرے باپ کے سارے کام کیے اور انہیں کچھ نہیں بتایا لیکن رات کو انہوں نے ماں کے بارے میں کچھ پوچھنے کے بجائے خود ان کی خبر سنا دی پھر صرف اتنا کہا
|
|
مشتبہ حالت میں گرفتار کر لیا گیا ہے وہ ٹیکسی سے سفر کر رہے تھے انسپیکٹر نے جواب میں کہا کہ ان کو فوراں یہاں بھیج دیا جائے
|
|
3G بہت تیز ترار بچا تھا اس کی پانچویں سالگرہ پر اسے نیا سمارٹ فون توفے میں ملا وہ اس پر ہر وقت ٹک ٹاک اور دوسری ایپس استعمال کرتا رہتا
|
End of preview. Expand
in Data Studio
README.md exists but content is empty.
- Downloads last month
- 24